
پاکستان کا طالبان حکومت پر شدید اعتراض — بارڈر حملوں کے بعد "منہ توڑ جواب” کی تنبیہ
پاکستان نے طالبان حکومت کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھا دیا — افغان بارڈر حملوں کے بعد “منہ توڑ جواب” کی وارننگ، دفترِ خارجہ کا سخت بیان۔
پاکستان نے افغان سرحد پر حملوں کے بعد طالبان حکومت کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے “طالبان رجیم” قرار دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر مزید اشتعال انگیز کارروائیاں ہوئیں تو پاکستان “منہ توڑ جواب” دے گا۔
دفترِ خارجہ کی جانب سے اتوار کی رات جاری بیان میں کہا گیا کہ طالبان رجیم اور اس سے منسلک عسکری گروہوں فتنہ خوارج اور فتنہ ہندستان نے 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب پاک-افغان سرحد پر “بلا اشتعال جارحیت” کی۔
بیان میں کہا گیا:
“پاکستان نے اپنے دفاع کے حق میں کارروائی کرتے ہوئے سرحد کے تمام مقامات پر حملے پسپا کر دیے اور طالبان فورسز اور ان کے خوارج اتحادیوں کو جانی و مالی نقصان پہنچایا۔”
دفترِ خارجہ کے مطابق، پاکستان کی جوابی کارروائی “ہدف پر مبنی اور درست” تھی تاکہ عام شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔ حکومتِ پاکستان نے ان حملوں کو خطے میں استحکام کو نقصان پہنچانے اور “پرامن ہمسائیگی کے جذبے کو کمزور کرنے کی کوشش” قرار دیا۔
پاکستان کے لہجے میں نمایاں تبدیلی
بیان کے آخری حصے میں پاکستان کی طالبان کے بارے میں طرزِ گفتگو میں واضح تبدیلی دیکھی گئی، جو اس سے قبل نسبتاً نرم اور محتاط رہی تھی۔
“ہم امید کرتے ہیں کہ ایک دن افغان عوام آزاد ہوں گے اور انہیں ایک حقیقی نمائندہ حکومت کے زیرِ انتظام زندگی گزارنے کا موقع ملے گا۔”
یہ جملہ نہ صرف طالبان حکومت کی نمائندہ حیثیت پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ مستقبل میں افغانستان میں سیاسی تبدیلی کے امکان یا خواہش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستان کی سرکاری سطح پر ایسی زبان استعمال کی گئی ہو جو طالبان حکومت کی مستقل حیثیت کو چیلنج کرتی ہو۔
طالبان کے وزیرِ خارجہ کے بیان کو مسترد
پاکستان نے بھارت میں طالبان کے نگران وزیرِ خارجہ کے حالیہ بیانات کو بھی مسترد کیا ہے، جنہیں دفترِ خارجہ نے “افغان سرزمین پر دہشتگرد عناصر کی موجودگی سے توجہ ہٹانے کی کوشش” قرار دیا۔
“طالبان رجیم علاقائی امن و استحکام کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔”
بیان میں اقوامِ متحدہ کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ افغانستان کی سرزمین اب بھی کالعدم تنظیموں کے زیرِ استعمال ہے۔
پاکستان نے زور دیا کہ طالبان حکومت ان گروہوں کے خلاف “ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدامات” کرے، ورنہ کسی بھی مزید اشتعال انگیزی کا “دوٹوک اور مؤثر جواب” دیا جائے گا۔
افغان مہاجرین اور بارڈر پالیسی
پاکستان نے یاد دلایا کہ وہ گزشتہ چار دہائیوں سے تقریباً 40 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے، مگر اب ان کی موجودگی کو “بین الاقوامی قوانین و اصولوں کے مطابق منظم” کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
دفترِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں “امن، استحکام، دوستی اور خوشحالی” چاہتا ہے، لیکن طالبان حکومت کو “ذمہ دارانہ طرزِ عمل اپنانا اور اپنے وعدوں پر عمل کرنا” ہوگا۔